تحریر : حیدر علی
قرآن کریم نے شہید کی حیات کے تناظر میں جس ادراک کے نا ہونے کا ذکر کیا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ انسان شہید کی حیات کا اداراک حاصل کرہی نہیں سکتا راستہ بند نہیں بلکہ راستہ موجود ہے ہمیں بس اس جانب سفر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کہ شہید کی حیات کو درک کرسکیں۔اگر راستہ بندہی ہوتا تو خدا کیوں اپنے بندے کو مخاطب کرکے یتدبرون ، تعقلون اور یتفکرون کی دعوت دیتا ۔ نباتات میں بیج پر ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب وہ بظاہر ایک بے جان ، مردہ ساخت چھوٹے کنکر یا پتھرکی مانند ہوتا ہے ، اس میں ظاہراً زندگی کے کوئی آثار نہیں ہوتے لیکن اصل میں وہ بیج اپنے اندر ایک حیات رکھتا ہے جب اسے مناسب ماحول اور اجزاء مہیا ہوتے ہیں تو وہ ہی مُردہ بیج ایک پودے اور پھر درخت کی شکل اختیار کرلیتا ہے پس جب قرآن میں ارشاد ہوتا ہے بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ ﴿١٥٤﴾ تمہیں اداراک نہیں کہ شہید زندہ ہے تو اس کا ایک معنی بلکل اس بیج کی مانند بھی لیا جاسکتا ہے جو بظاہر ایک مردہ حالت میں پڑا ہو ہم نہیں جانتے یہ زندہ ہے یا نہیں ۔ اعتقادی لحاظ سے تسلیم کرلینا کہ شہید زندہ ہے کیونکہ خدا نےفرما دیا تو ٹھیک ہی ہے اور عقلانی طور تسلیم کرنا اس میں بھی زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ شہید کی حیات کو سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ شہید کی حیات کو درک کرنا وہ پہلی سیڑھی ہے جو وسیلہ بنے گی اس حیات ابدی کو سمجھنے کے لیے جو اصل حقیقی حیات جس کی جانب سب نے پلٹنا ہے یعنی بعد از موت اخروی حیات ۔
دوسرا مرحلہ شہید کے افکار کی معرفت ہوتی ہے یعنی وہ افکار جو شہید کو ذاتی زندگی سے نکال کر اجتماعی میدانِ مبارزا و شہادت میں لاکھڑا کرتے ہیں وہ افکار ہی اصل اس شہید کی میراث ہوتے ہیں ۔ اسی لیے تو امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت پر فرمایا کہ "افکار این شهید را زنده نگهدارید۔" یعنی شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی رضوان اللہ تعالی کے افکار کو زندہ رکھیں ۔ شہید قائد رضوان اللہ تعالی کی راہ و روش ، کردار و عمل ملت پاکستان کے لیے قریبی ترین اسوہ بن چکا ہے جس پرسند شہادت کی مہر ثبت ہوچکی ہے
فقط 4 برس کی فعالیت جو آج زمانوں پر محیط ہوچکی ہے ۔31 برس گزر نے کے باوجود شہید قائد علامہ عارف حسین کی روش اور اصول قومی وملی معاملات میں رہبری کرتے آرہے ہیں ۔وہ رزق شعور، رزق شہادت اور رزق سیاسی جو شہید قائد نے دیا تھا آج تک ملت اسی دسترخواں سے فیضیاب ہوتی چلی آرہی ہے ۔آخر وہ کیا بات تھی جس نے فقط 4 سالہ فعالیت کو زمانوں پر محیط کردیا ۔ یقینا وہ خالص افکار ہی تھے جن کو اپنا کر شہید حسینی رح عین جوانی کے عالم میں اس عالی مقام کو پہنچے جہاں بڑے بڑے سفید ریش نہیں پہنچ سکے تھے ۔ شہید قائد کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ایک اور چیز بھی عیاں ہوتی ہے کہ شہید قائد کی زندگی اپنے جد امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ سے بعض موارد میں مماثل ہے ایک غالب مماثلت دونوں اولیاء اللہ کی مظلومیت تھی ۔ امیر المومنین علی ؑ کو اپنی حکومت کے 4 سالہ اور کچھ ماہ کے عرصہ میں بیرونی مسائل سے زیادہ داخلی مسائل کا سامنا تھا جب بھی امیرالمومنین علی ؑ کسی فتنہ کی سرکوبی کے لیے بڑھتے تو زیادہ توانائی داخلی معاملات اور اپنی صفوں میں موجود خواص کو قائل کرنے پر صرف کرنا پڑتی تھی جو الہی ہدف کے حصول کے عمل کو سست کردیتی یہ وہ عمل تھا جس کا شکوہ امیرالمومنین نے بہت زیادہ کیا ۔ دوسری طرف بعین مشکل شہید قائد کوبھی اپنی رہبری کے دوران درپیش رہی جب قومی سطح پر سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا تو لاہور میں ایک اجلاس کے دوران شہید قائد رضوان اللہ تعالی کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر شہید قائد ڈٹ رہے اور فرمایا کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ امام خمینی کے کہنے پر کہہ رہا ہوں اور ان کے خط کے مطابق کہہ رہا پسینے سے شرابور آخر میں جب اجلاس سے باہر نکلے سب سے پہلے بزرگوار امجد کاظمی صاحب کے ذریعہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کو بلوایا اور پوچھا کہ ڈاکٹر بھائی آپ بتائیں بڑے علماء تو میری بات نہیں مان رہے تم مجھے بتاو تم میرے ساتھ ہویا نہیں ؟؟ ڈاکٹر شہید نے بے ساختہ کہا کہ آغا " آپ کو چھوڑنا اسلام کو چھوڑنا ہے میں آپ کے ساتھ ہوں "۔ الیکشن والی بحث نے بعد میں بہت شدت اختیار کی 23 مارچ 1986 کو لاہور میں وفاق المدارس کے اجلاس ہوا جس میں اس موضوع کو بھی دانستہ طور پر ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا اس اجلاس میں اس وقت کے تمام علماء کرام اور مدارس کے طلاب بھی جمع تھے سب نے مل کر شہید حسینی کے سیاسی میدان میں اترنے کی شدید مخالفت کی اور بہت سخت تقاریر کی گئیں لیکن شہید قائد اس مشکل کو بھی عبور کرگئے ۔اسی طرح امیرالمومنین نے جس طرح اندرونی اور بیرونی فتنہ کی آنکھ کو پھوڑا جو بقول امیرالمومنینؑ یہ کام کوئی اور نہیں کرسکتا تھا ۔اسی طرح جب شہید حسینی رضوان اللہ تعالی کی رہبری کے دور میں جب داخلی سطح پر غالی اور مقصر کے ذریعہ قوم کی تقسیم کی سازش ہوئی تو شہیدقائد نے اپنے عمل سے اس فتنہ کو ناکام بنایا اس کا مظہر لاہور مینار پاکستان کانفرنس میں ملت کے تمام طبقات بشمول ذاکرین کی واضح شرکت تھی شہید قائد کی شہادت کے بعد آج جس شد و مد سے یہ فتنہ دوبارہ اٹھا ہے اور بات اعلانیہ مرجعیت ، رہبریت سمیت دیگر مقدسات کی توہین تک آئی ہے اس کا مطلب ہے آج فعالیت تو ہے مگر وہ کردار نہیں ہے جو شہید قائد نے اس آگ کو بجھانے کے لیے ادا کیا تھا ۔ شہید قائد خود چل کر ذاکرین کے گھر جاتے انہیں خاص عزت سے نوازتے اسی لیے تو آج بھی بہت سارے اختلاف کے باوجود پرانے نمایاں ذاکرین شہید قائد کی قدر کرتے ہیں ۔شہید قائد کی یہ روش بقول رہنر انقلاب اسلامی کے جذب حداکثری و دفع حداقلی کے تحت تھی ۔
چند سال قبل قائد انقلاب اسلامی سید علی خامنائی حفظ اللہ نے برسی امام خمینی کی مناسبت کے موقع پر امام خمینی کے افکار میں تحریف کے خطرہ سے آگاہ کیا تھا کیونکہ جب دشمن راستہ روکنے میں ناکام ہوتا ہے تو پھر راستے کو موڑنے کی کوشش کرتا ہے یعنی تحریف کرتا ہے بلکل یہ ہی خطرہ قائدِ شہید عارف حسینی کے افکار کے حوالے سے بھی موجود ہے اور آج پاکستان کے حالات میں ہم شہید کے افکار میں ہونے والی آمیزیشن کو ہم محسوس کرسکتے ہیں لہذاء اس خطرہ کے تدارک کے لیے اور قائدِشہید کی سیرت و روش سے درست آشنائی کے لیےاقدامات کی ضرورت ہے تاکہ خط واضح رہے اور اس خط کی بنیاد پر فعال اداروں، جماعتوں کی روش کو پرکھا جاسکے۔ قائدِشہید کی سیرت اور روش کو سمجھنے کے لیے کچھ بزرگان نے آثار شہید قائد کو جمع کرکے کتابی شکل میں ڈھالا ہے جن کا مطالعہ کرکے شہید قائد کی خالص روش و افکار سے کسی حد تک سمجھنے میں مدد ملتی ہےوہ دوستان جو شہید قائد رضوان اللہ تعالی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ذیل میں بتائی گئیں کتب کی طرف رجوع کریں تاکہ غلط فہمیوں سے بچا جاسکے ۔ ان کتب کے نام درج ذیل ہیں ۔
"سفیر نور " یہ کتاب شہید قائد کے دور قیادت میں ہونے والی فعالیت پر مشتمل ہے ۔
" پیام نور " یہ کتاب شہید قائد کے تربیتی و اخلاقی دروس پر مشتمل ہے ۔
"گفتار صدق" یہ کتاب شہید قائد کے قرآنی دروس پر مشتمل ہے
"سخن عشق " یہ کتاب شہید قائد کے عزاداری و مجالس میں کیے گئے خطابات پر مشتمل ہے ۔
" آداب کارواں " یہ کتاب اجتماعی و تنظیمی امور پر شہید قائد کے کیے گئے خطبات پر مشتمل ہے ۔
"میثاق خون " یہ کتاب شہید قائد کے اوائل قیادت میں مدارس سے متعلق کی گئیں گفتگووں کا مجموعہ ہے
" اسلوب سیاست " یہ کتاب قائد ِشہید کی سیاسی جدوجہد اور روش پر مشتمل ہے
" وصال حق" یہ کتاب شہید قائد کی مناجات اور بالخصوص دعائے کمیل میں ہونے والی تقاریر کا مجموعہ ہے ۔
"نقیب وحدت " یہ کتاب قائد شہید کی پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے لیے کی گئی کوششوں اور خطابات کا مجموعہ ہے
" گوہر نایاب " اس کتاب میں شہید قائد سے متعلق وہ باتیں جمع کی گئیں ہیں جو مذکورہ کتب میں نہیں سماسکیں ۔
" سفیر انقلاب " یہ کتاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی حیات پر لکھی گئی ہے لیکن اس میں بھی شہید قائد حوالے سے بہت سارے نقاط موجود ہیں ۔
نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔